جمیل الدین عالی
اردو کے مشہورشاعر۔ اور کئی مشہور ملی نغموں کے خالق
سوانح
20 جنوری 1926ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ 1940ء میں اینگلو عربک کالج دریا گنج دہلی سےمیٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1945ء میں معاشیات ، تاریخ اور فارسی میں بی اے کیا۔ 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور پاکستان ٹیکسیشن سروس کے لیے نامزد ہوئے۔ 1971ء میں جامعہ کراچی سے ایف ای ایل 1976ء میں ایل ایل بی سیکنڈ ڈویژن میںپاس کرکے ملازمت کا آغاز کیا۔ 1948ء میں حکومت پاکستان وزارت تجارت میں بطور اسسٹنٹ رہے۔ 1951ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد پاکستان ٹیکسیشن سروس ملی اور انکم ٹیکس افسر مقرر ہوئے۔ 1963ء میں وزارت تعلیم میں کاپی رائٹ رجسٹرار مقرر ہوئے۔ اس دوران میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو میں فیلو منتخب ہوئے۔ اس کے بعد دوبارہ وزارت تعلیم میں بھیج دیا گیا۔ لیکن فوراًگورنمنٹ نے عالی صاحب کو ڈیپوٹیشن پر نیشنل پریس ٹرسٹ بھیج دیا جہاں پر انہوں نے سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ 1967ء میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور سینٹر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے وہاں سے ترقی پاکر پاکستان بینکنگ کونسل میںپلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ایڈوائزر مقرر ہوئے۔جمیل الدین عالی کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کو بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ آ کو 1989ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی بھی ملا۔
شاعری
عالی جس طرح کئی سطحوں پرزندگی گزارتے ہیں ویسے ہی ان کی تخلیقی اظہار کئی سطحوں پرہوتا رہتا ہے۔ تام انہوں نے دوہا نگاری میں کچھ ایسا راگ چھیڑ دیا ہے یا اردو سائکی کے کسی ایسے تار کو چھو دیا ہے کہ دوہا ان سے اوروہ دوہے سکے منسوب ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے دوہے کی جو بازیافت کی ہے اور اسے بطور صنف شعر کے اردو میں جواستحکام بخشا ہے وہ خاص ان کی دین ہو کر رہ گیا ہے۔ عالی اگر اور کچھ نہ بھی کرتے تو بھی یہ ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا کیونکہ یہ ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا۔ کیونکہ شعر گوئی میں کمال توفیق کی بات سہی ، لیکن یہ کہیں زیادہ توفیق کی بات ہے کہ تاریخ کا کوئی موڑ ، کوئی رخ ، کوئی نئی جہت ، کوئی نئی راہ ، چھوتی یا بڑی کسی سے منسوب ہو جائے۔
اردو کے مشہورشاعر۔ اور کئی مشہور ملی نغموں کے خالق
سوانح
20 جنوری 1926ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ 1940ء میں اینگلو عربک کالج دریا گنج دہلی سےمیٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1945ء میں معاشیات ، تاریخ اور فارسی میں بی اے کیا۔ 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور پاکستان ٹیکسیشن سروس کے لیے نامزد ہوئے۔ 1971ء میں جامعہ کراچی سے ایف ای ایل 1976ء میں ایل ایل بی سیکنڈ ڈویژن میںپاس کرکے ملازمت کا آغاز کیا۔ 1948ء میں حکومت پاکستان وزارت تجارت میں بطور اسسٹنٹ رہے۔ 1951ء میں سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی کے بعد پاکستان ٹیکسیشن سروس ملی اور انکم ٹیکس افسر مقرر ہوئے۔ 1963ء میں وزارت تعلیم میں کاپی رائٹ رجسٹرار مقرر ہوئے۔ اس دوران میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو میں فیلو منتخب ہوئے۔ اس کے بعد دوبارہ وزارت تعلیم میں بھیج دیا گیا۔ لیکن فوراًگورنمنٹ نے عالی صاحب کو ڈیپوٹیشن پر نیشنل پریس ٹرسٹ بھیج دیا جہاں پر انہوں نے سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ 1967ء میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور سینٹر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے وہاں سے ترقی پاکر پاکستان بینکنگ کونسل میںپلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ایڈوائزر مقرر ہوئے۔جمیل الدین عالی کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کو بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ آ کو 1989ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی بھی ملا۔
شاعری
عالی جس طرح کئی سطحوں پرزندگی گزارتے ہیں ویسے ہی ان کی تخلیقی اظہار کئی سطحوں پرہوتا رہتا ہے۔ تام انہوں نے دوہا نگاری میں کچھ ایسا راگ چھیڑ دیا ہے یا اردو سائکی کے کسی ایسے تار کو چھو دیا ہے کہ دوہا ان سے اوروہ دوہے سکے منسوب ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے دوہے کی جو بازیافت کی ہے اور اسے بطور صنف شعر کے اردو میں جواستحکام بخشا ہے وہ خاص ان کی دین ہو کر رہ گیا ہے۔ عالی اگر اور کچھ نہ بھی کرتے تو بھی یہ ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا کیونکہ یہ ان کی مغفرت کے لیے کافی تھا۔ کیونکہ شعر گوئی میں کمال توفیق کی بات سہی ، لیکن یہ کہیں زیادہ توفیق کی بات ہے کہ تاریخ کا کوئی موڑ ، کوئی رخ ، کوئی نئی جہت ، کوئی نئی راہ ، چھوتی یا بڑی کسی سے منسوب ہو جائے۔